جس کو ہونا ہے وہ ان آنکھوں سے اوجھل ہو جائے
اس سے پہلے کہ مرا کام مکمل ہو جائے
میں تو بس دیکھتا رہتا ہوں زمینوں کے کٹاؤ
آدمی سوچنے والا ہو تو پاگل ہو جائے
کہیں ایسا نہ ہو ویرانے ہوں پھر سے آباد
کہیں ایسا نہ ہو ہر شہر ہی جنگل ہو جائے
یہ زمیں جس پہ ہے گلزاروں کی تعداد بہت
یہ بھی ہو سکتا ہے کل کو وہی مقتل ہو جائے
ریگ زاروں سے بخارات ہی اٹھتے ہیں مگر
کون جانے کہ یہ گرمی کوئی بادل ہو جائے
میرا پندار ہی دیوار ہے ناکامی کی
یہ جو گر جائے تو ہر خواب مکمل ہو جائے
غزل
جس کو ہونا ہے وہ ان آنکھوں سے اوجھل ہو جائے
اسعد بدایونی