جس کو دیکھو بے وفا ہے آئنوں کے شہر میں
پتھروں سے واسطہ ہے آئنوں کے شہر میں
روز حرف آرزو پر ٹوٹتے رہتے ہیں دل
روز عرض مدعا ہے آئنوں کے شہر میں
قہقہے لگتے ہیں آواز شکست دل کے ساتھ
کب کوئی درد آشنا ہے آئنوں کے شہر میں
حسن والو کس لیے اعجازؔ سے یہ اجتناب
اک وہی تو پارسا ہے آئنوں کے شہر میں
غزل
جس کو دیکھو بے وفا ہے آئنوں کے شہر میں
اعجاز وارثی