جس کو چاہو تم اس کو بھر دو
ماہ کو نقرہ مہر کو زر دو
پیر مغاں سے عرض یہ کر دو
دکھن بخشو اگر ساغر دو
آہ یہ دونوں آفت جاں ہیں
ناز و ادا لعنت بر ہر دو
جی جلتا ہے آہ کے جھونکو
شمع محبت کو گل کر دو
قطرہ فشانی کیا اے آنکھو
ایسے برسو جل تھل بھر دو
بلبلو صیاد آج خفا ہے
حلق چھری کے نیچے دھر دو
جان ان آنکھوں سے نہ بچے گی
یہ ہے ادھر تنہا وہ ادھر دو
دم کی آمد و شد کیا کہیے
ضعف کی راہ سے ہیں یہ سفر دو
اپنا گلا خود کاٹتے ہیں ہم
دم لو چھری کی تلے بے دردو
جان و مال فدا کرنے میں
فکر و تردد اے نا مردو
عرض یہ ہے نقاش ازل سے
حب کے نقش میں یار کو گھر دو
دولت دل تم تو حاضر ہے
خط عذار تمسک کر دو
شکر گزار بہ ہر صورت ہیں
زہر ہمیں دو یا شکر دو
آنکھوں میں ہے مواد گریہ
بحرؔ ان پھوڑوں کو نشتر دو
غزل
جس کو چاہو تم اس کو بھر دو
امداد علی بحر