جس کو اپنے بس میں کرنا تھا اس سے ہی لڑ بیٹھا
سیدھا منتر پڑھتے پڑھتے الٹا منتر پڑھ بیٹھا
وہ ایسا تصویر نواز کہ جس کو میں جنچتا ہی نہیں
اور اک میں ہر فریم کے اندر چتر اسی کا جڑ بیٹھا
گیان لٹانے نکلا تھا اور جھولی میں بھر لایا پیار
میں ایسا رنگ ریز ہوں جس پہ رنگ چنر کا چڑھ بیٹھا
پرسوں میں بازار گیا تھا درپن لینے کی خاطر
کیا بولوں دوکان پہ ہی میں شرم کے مارے گڑ بیٹھا
باقی باتیں پھر کر لیں گے آج یہ گتھی سلجھا لیں
دھرتی کنکڑ پر بیٹھی یا پھر اس پر کنکڑ بیٹھا
غزل
جس کو اپنے بس میں کرنا تھا اس سے ہی لڑ بیٹھا
نوین سی چترویدی