جس کی سوندھی سوندھی خوشبو آنگن آنگن پلتی تھی
اس مٹی کا بوجھ اٹھاتے جسم کی مٹی گلتی تھی
جس کو تاپ کے گرم لحافوں میں بچے سو جاتے تھے
دل کے چولھے میں ہر دم وہ آگ برابر جلتی تھی
گرم دوپہروں میں جلتے صحنوں میں جھاڑو دیتے تھے
جن بوڑھے ہاتھوں سے پک کر روٹی پھول میں ڈھلتی تھی
کسی کہانی میں ویرانی میں جب دل گھبراتا تھا
کسی عزیز دعا کی خوشبو ساتھ ہمارے چلتی تھی
گرد اڑاتے زرد بگولے در پر دستک دیتے تھے
اور خستہ دیواروں کی پل بھر میں شکل بدلتی تھی
خشک کھجور کے پتوں سے جب نیند کا بستر سجتا تھا
خواب نگر کی شہزادی گلیوں میں آن نکلتی تھی
دن آتا تھا اور سینے میں شام کا خاکہ بنتا تھا
شام آتی تھی اور جسموں میں شام بھی آخر ڈھلتی تھی
غزل
جس کی سوندھی سوندھی خوشبو آنگن آنگن پلتی تھی
حماد نیازی