جس کا انکار بھی انکار نہ سمجھا جائے
ہم سے وہ یار طرح دار نہ سمجھا جائے
اتنی کاوش بھی نہ کر میری اسیری کے لیے
تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھا جائے
اب جو ٹھہری ہے ملاقات تو اس شرط کے ساتھ
شوق کو در خور اظہار نہ سمجھا جائے
نالہ بلبل کا جو سنتا ہے تو کھل اٹھتا ہے گل
عشق کو مفت کی بیگار نہ سمجھا جائے
عشق کو شاد کرے غم کا مقدر بدلے
حسن کو اتنا بھی مختار نہ سمجھا جائے
بڑھ چلا آج بہت حد سے جنون گستاخ
اب کہیں اس سے سر دار نہ سمجھا جائے
دل کے لینے سے سلیمؔ اس کو نہیں ہے انکار
لیکن اس طرح کہ اقرار نہ سمجھا جائے
غزل
جس کا انکار بھی انکار نہ سمجھا جائے
سلیم احمد