جس کا چہرہ گلاب جیسا ہے
اس کا ملنا تو خواب جیسا ہے
بات کرتا ہوں اس لیے ان کی
بات کرنا ثواب جیسا ہے
میرا جینا تری جدائی میں
اک مسلسل عذاب جیسا ہے
نشہ اس کی نشیلی آنکھوں کا
سب سے اچھی شراب جیسا ہے
حال اس کا بھی آج کل یارو
دل خانہ خراب جیسا ہے
اے پیامؔ ان کی چاہتوں کا پیام
چاہتوں کی کتاب جیسا ہے

غزل
جس کا چہرہ گلاب جیسا ہے
اقبال پیام