جس کا بدن گلاب تھا وہ یار بھی نہیں
اب کے برس بہار کے آثار بھی نہیں
پیڑوں پہ اب بھی چھائی ہیں ٹھنڈی اداسیاں
امکان جشن رنگ کا اس بار بھی نہیں
دریا کے التفات سے اتنا ہی بس ہوا
تشنہ نہیں ہیں ہونٹ تو سرشار بھی نہیں
راہوں کے پیچ و خم بھی اسے دیکھنے کا شوق
چلنے کو تیز دھوپ میں تیار بھی نہیں
بچھڑے ہوؤں کی یاد نبھاتے ہیں جان کر
ورنہ کسی کو بھولنا دشوار بھی نہیں
جتنا ستم شعار ہے یہ دل یہ اپنا دل
اتنے ستم شعار تو اغیار بھی نہیں
اہل ہنر کے باب میں اس کا بھی ذکر ہو
فکریؔ کو ایسی بات پہ اصرار بھی نہیں
غزل
جس کا بدن گلاب تھا وہ یار بھی نہیں
پرکاش فکری