جس دن سے مری تم سے شناسائی ہوئی ہے
اس دن سے مری اور بھی رسوائی ہوئی ہے
تم نے ہی نظر بھر کے نہیں دیکھا ہے مجھ کو
ایسے میں بھلا خاک پذیرائی ہوئی ہے
قصہ جو نیا پاس کوئی ہے تو سناؤ
یے بات تو سو بار کی دہرائی ہوئی ہے
چاہوں بھی تو میں توڑ نہیں پاؤں گی اس کو
رسموں کی یے زنجیر جو پہنائی ہوئی ہے
تو نے بھی اڑائی ہے حسیں زندگی میری
تو بھی تو مرے غم کی تماشائی ہوئی ہے
سچ پوچھو تو بدنام ہوئے نام کی خاطر
شہرت سے زیادہ مری رسوائی ہوئی ہے
رہنے دیں کرم ہم پہ کہ یے جان ہماری
ہمدردیوں سے آپ کی گھبرائی ہوئی ہے
تم پھر سے اٹھا لائے ہو دنیا کو کہاں سے
یے تو مری سو بار کی ٹھکرائی ہوئی ہے

غزل
جس دن سے مری تم سے شناسائی ہوئی ہے
سیا سچدیو