EN हिंदी
جس دن سے ہم جنوں کے ہیں داماں لگے ہوئے | شیح شیری
jis din se hum junun ke hain daman lage hue

غزل

جس دن سے ہم جنوں کے ہیں داماں لگے ہوئے

مرزا علی لطف

;

جس دن سے ہم جنوں کے ہیں داماں لگے ہوئے
دامن کی جا یہاں ہیں گریباں لگے ہوئے

اللہ رے قید‌ خانۂ ہستی کہ دم کے ساتھ
ہر اک قدم پہ لاکھوں ہیں زنداں لگے ہوئے

رویا میں دیکھ مرقد مجنوں کو دہاڑ مار
تھے جائے گل درخت مغیلاں لگے ہوئے

بارے چھٹے اسیر بلا اس گلی میں آج
ہیں تودہ ہائے‌ گنج شہیداں لگے ہوئے

یاران پیش رو ذرا ٹھہرو کہ جیوں جرس
ہم پیچھے پیچھے آتے ہیں نالاں لگے ہوئے

رکھ سوچ کر قدم مری وادی میں گرد باد
پاؤں سے اپنے ہیں یہ بیاباں لگے ہوئے

کوئی تو میرے ناصح دانا سے یہ کہو
دل چھوٹتے ہیں باتوں میں ناداں لگے ہوئے

کیا دن تھے وہ بھی لطفؔ کہ رہتے تھے مثل زلف
کانوں سے اس کے ہم سے پریشاں لگے ہوئے