جس دل میں تری زلف کا سودا نہیں ہوتا
وہ دل نہیں ہوتا نہیں ہوتا نہیں ہوتا
عاشق جسے کہتے ہیں وہ پیدا نہیں ہوتا
اور ہوئے بھی بالفرض تو مجھ سا نہیں ہوتا
جو کشتۂ تیغ نگہ یار ہیں ان پر
کچھ کارگر اعجاز مسیحا نہیں ہوتا
مانا کہ ستم کرتے ہیں معشوق مگر آپ
جو مجھ پہ روا رکھتے ہیں ایسا نہیں ہوتا
جو مست ہے ساقی نگہ مست کا وہ تو
منت کش جام و مے و مینا نہیں ہوتا
کہتا ہے کوئی شعلۂ جوالہ کوئی برق
اس دل پہ گماں لوگوں کو کیا کیا نہیں ہوتا
زاہد ہو دوچار نگہ مست تو دیکھیں
آلودہ بہ مے کیونکہ مصلیٰ نہیں ہوتا
ہاں کچھ تو بیان ہوس دل میں ہے لذت
جو لب سے جدا حرف تمنا نہیں ہوتا
تسکین دل سوختۂ شمع کی خاطر
کس شب پر پروانہ سے پنکھا نہیں ہوتا
دل عشق نے اتنا بھی نہ چھوڑا کہ جو کہویں
تقسیم جز لا یتجزا نہیں ہوتا
دے بیٹھے ہو دل عیشؔ تم ان لوگوں کو جن کی
بیداد کا واں بھی کوئی شنوا نہیں ہوتا
غزل
جس دل میں تری زلف کا سودا نہیں ہوتا
عیش دہلوی