جس دم ترے کوچے سے ہم آن نکلتے ہیں
ہر گام پہ دہشت سے بے جان نکلتے ہیں
یہ آن ہے اے یارو یا نوک ہے برچھی کی
یا سینے سے تیروں کے پیکان نکلتے ہیں
رندوں نے کہیں ان کی خدمت میں بے ادبی کی
جو شیخ جی مجلس سے سرسان نکلتے ہیں
یہ طفل سرشک اپنے ایسا ہو میاں بہکیں
بے طرح یہ اب گھر سے نادان نکلتے ہیں
یہ ضد ہے جنہیں یارو آ جائیں جو مشہد پر
تو تھام کے ہاتھوں سے دامان نکلتے ہیں
کس طرح غبار ان تک پہنچے گا بھلا اپنا
آصفؔ جو کبھی گھر سے خوبان نکلتے ہیں
غزل
جس دم ترے کوچے سے ہم آن نکلتے ہیں
آصف الدولہ