جس بھی لفظ پہ انگلیاں رکھ دے ساز کرے
نظم کی مرضی کیسے بھی آغاز کرے
کون لگائے قدغن خواب میں اشیا پر
آئنہ ہاتھ ملائے عکس آواز کرے
جب بچوں کو دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں
مالک ان پھولوں کی عمر دراز کرے
سوتے جاگتے کچھ بھی بولتا رہتا ہوں
کون بھلا مجھ ایسے کو ہم راز کرے
قدم قدم پر ان کی ضرورت پڑتی ہے
آنکھ سے کہنا آنسو پس انداز کرے
غزل
جس بھی لفظ پہ انگلیاں رکھ دے ساز کرے
ضیاء المصطفیٰ ترکؔ