جس بات کو سن کر تجھے تکلیف ہوئی ہے
دنیا میں اسی بات کی تعریف ہوئی ہے
پیغام مسرت پہ خوشی خوب ہے لیکن
سنتے ہیں کہ ہم سایے کو تکلیف ہوئی ہے
بگڑے ہوئے کچھ حرف ہیں بے معنی سے کچھ لفظ
یہ زیست کے اوراق کی تالیف ہوئی ہے
روداد میں ایسی تو کوئی بات نہیں تھی
مانو کہ نہ مانو کوئی تحریف ہوئی ہے
دشمن پہ بھی گزرے نہ کبھی ایسا زمانہ
کلیوں کے چٹکنے سے بھی تکلیف ہوئی ہے
لکھتا تھا قصیدے تو کوئی سنتا نہیں تھا
لکھنے لگا جب ہجو تو تعریف ہوئی ہے
غزل
جس بات کو سن کر تجھے تکلیف ہوئی ہے
وقار واثقی