EN हिंदी
جنس گراں کا میں ہوں خریدار دوستو | شیح شیری
jins-e-giran ka main hun KHaridar dosto

غزل

جنس گراں کا میں ہوں خریدار دوستو

رضا جونپوری

;

جنس گراں کا میں ہوں خریدار دوستو
آخر کہاں ہے مصر کا بازار دوستو

شائستۂ خطا ہیں مری بے گناہیاں
ناکردہ جرم کا ہوں سزاوار دوستو

ان گمرہان جادہ و منزل کی خیر ہو
رہبر نہ کوئی قافلہ سالار دوستو

پر پیچ زندگی کی وہ راہیں کہ الاماں
یاد آ گیا ہے کاکل خم دار دوستو

اب تک تلاش کرتی ہے تعمیر کائنات
بزم جنوں میں ایک تھا ہشیار دوستو

آیا حیات عشق کی عظمت کا جب خیال
بڑھ کر صدا دی میں نے سر دار دوستو

کھل کر زباں سے کرتے ہیں اظہار دشمنی
بہتر ہیں آج تم سے یہ اغیار دوستو

منزل تو دے رہی ہے صدا آج بھی مگر
خود بن گیا ہوں راہ میں دیوار دوستو