جن زخموں پر تھا ناز ہمیں وہ زخم بھی بھرتے جاتے ہیں
سانسیں ہیں کہ گھٹتی جاتی ہیں دن ہیں کہ گزرتے جاتے ہیں
دیوار ہے گم صم در تنہا پھر ہوتے چلے ہیں شجر تنہا
کچھ دھوپ سی ڈھلتی جاتی ہے کچھ سائے اترتے جاتے ہیں
ہم یوں ہی نہیں ہیں سست قدم ہم جانتے ہیں فردا کیا ہے
شاید کوئی دے آواز ہمیں رہ رہ کے ٹھہرتے جاتے ہیں
آواز وہ شیشۂ نازک ہے محراب نظر میں رہنے دے
کیوں فرش سماعت پر گر کر ریزے یہ بکھرتے جاتے ہیں
روئیں یا ہنسیں اس حالت پر احساس یہ ہوتا ہے اکثر
وعدہ تو کسی سے شاذؔ نہ تھا ہم ہیں کہ مکرتے جاتے ہیں

غزل
جن زخموں پر تھا ناز ہمیں وہ زخم بھی بھرتے جاتے ہیں
شاذ تمکنت