جن سے مقصود ہیں منزل کے نشانات مجھے
بھولتے جاتے ہیں وہ سارے اشارات مجھے
راہ عرفان میں بھٹکے ہیں کچھ ایسے دونوں
میں اسے ڈھونڈھتا ہوں اور مری ذات مجھے
ان کے ڈر سے کئی راتیں مری بے خواب رہیں
ڈھونڈھتی پھرتی ہیں خوابوں میں جو آفات مجھے
دوسروں کے لئے وافر ہیں مرے پاس جواب
کتنے مشکل ہیں مگر اپنے سوالات مجھے
یہیں روشن ہے کسی ایک خرابے میں چراغ
اک ذرا راہ دکھا دے یہ سیہ رات مجھے
چھین لیتا ہے کبھی میرے محاسن بیتابؔ
بخش دیتا ہے کبھی اپنی کرامات مجھے

غزل
جن سے مقصود ہیں منزل کے نشانات مجھے
پرتپال سنگھ بیتاب