EN हिंदी
جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں | شیح شیری
jin raaton mein nind uD jati hai kya qahr ki raaten hoti hain

غزل

جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں

آرزو لکھنوی

;

جن راتوں میں نیند اڑ جاتی ہے کیا قہر کی راتیں ہوتی ہیں
دروازوں سے ٹکرا جاتے ہیں دیواروں سے باتیں ہوتی ہیں

آشوب جدائی کیا کہیے ان ہونی باتیں ہوتی ہیں
آنکھوں میں اندھیرا چھاتا ہے جب اجالی راتیں ہوتی ہیں

جب وہ نہیں ہوتے پہلو میں اور لمبی راتیں ہوتی ہیں
یاد آ کے ستاتی رہتی ہے اور دل سے باتیں ہوتی ہیں

گھر گھر کے بادل آتے ہیں اور بے برسے کھل جاتے ہیں
امیدوں کی جھوٹی دنیا میں سوکھی برساتیں ہوتی ہیں

امید کا سورج ڈوبا ہے آنکھوں میں اندھیرا چھایا ہے
دنیائے فراق میں دن کیسا راتیں ہی راتیں ہوتی ہیں

طے کرنا ہیں جھگڑے جینے کے جس طرح بنے کہتے سنتے
بہروں سے بھی پالا پڑتا ہے گونگوں سے بھی باتیں ہوتی ہیں

آنکھوں میں کہاں رس کی بوندیں کچھ ہے تو لہو کی لالی ہے
اس بدلی ہوئی رت میں اب تو خونیں برساتیں ہوتی ہیں

قسمت جاگے تو ہم سوئیں قسمت سوئے تو ہم جاگیں
دونوں ہی کو نیند آئے جس میں کب ایسی راتیں ہوتی ہیں

جو کان لگا کر سنتے ہیں کیا جانیں رموز محبت کے
اب ہونٹ نہیں ہلنے پاتے اور پہروں باتیں ہوتی ہیں

جو ناز ہے وہ اپناتا ہے جو غمزہ ہے وہ لبھاتا ہے
ان رنگ برنگی پردوں میں گھاتوں پر گھاتیں ہوتی ہیں

ہنسنے میں جو آنسو آتے ہیں نیرنگ جہاں بتلاتے ہیں
ہر روز جنازے جاتے ہیں ہر روز براتیں ہوتی ہیں

جو کچھ بھی خوشی سے ہوتا ہے یہ دل کا بوجھ نہ بن جائے
پیمان وفا بھی رہنے دو سب جھوٹی باتیں ہوتی ہیں

جب تک ہے دلوں میں سچائی سب ناز و نیاز وہیں تک ہیں
جب خود غرضی آ جاتی ہے جل ہوتے ہیں گھاتیں ہوتی ہیں

ہمت کس کی ہے جو پوچھے یہ آرزوئے سودائی سے
کیوں صاحب آخر اکیلے میں یہ کس سے باتیں ہوتی ہیں