جن کے فٹ پاتھ پہ گھر پاؤں میں چھالے ہوں گے
ان کے ذہنوں میں نہ مسجد نہ شوالے ہوں گے
بھوکے بچوں کی امیدیں نہ شکستہ ہو جائیں
ماں نے کچھ اشک بھی پانی میں ابالے ہوں گے
تیرے لشکر میں کوئی ہو تو بلا لے اس کو
میرا دعویٰ ہے کہ اس سمت جیالے ہوں گے
جنگ پر جاتے ہوئے بیٹے کی ماں سے پوچھو
کیسے جذبات کے طوفان سنبھالے ہوں گے
سجدۂ حق کے لئے سینہ سپر تھے غازی
ایسے دنیا میں کہاں چاہنے والے ہوں گے
کچھ نہ ساحل پہ ملے گا کہ شفاؔ اس نے تو
در یکتا کے لیے بحر کھنگالے ہوں گے
غزل
جن کے فٹ پاتھ پہ گھر پاؤں میں چھالے ہوں گے
شفا کجگاؤنوی