جیون کو دکھ دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے
بچے لیکن سوئے ہوئے تھے کس سے کہانی کہتے
سچ کہنے کا حوصلہ تم نے چھین لیا ہے ورنہ
شہر میں پھیلی ویرانی کو سب ویرانی کہتے
وقت گزرتا جاتا اور یہ زخم ہرے رہتے تو
بڑی حفاظت سے رکھی ہے تیری نشانی کہتے
وہ تو شاید دونوں کا دکھ اک جیسا تھا ورنہ
ہم بھی پتھر مارتے تجھ کو اور دیوانی کہتے
تبدیلی سچائی ہے اس کو مانتے لیکن کیسے
آئینے کو دیکھ کے اک تصویر پرانی کہتے
تیرا لہجہ اپنایا اب دل میں حسرت سی ہے
اپنی کوئی بات کبھی تو اپنی زبانی کہتے
چپ رہ کر اظہار کیا ہے کہہ سکتے تو آنسؔ
ایک علاحدہ طرز سخن کا تجھ کو بانی کہتے
غزل
جیون کو دکھ دکھ کو آگ اور آگ کو پانی کہتے
آنس معین