EN हिंदी
جیتا ہوں جو مر مر کے یہ جینا تو نہیں ہے | شیح شیری
jita hun jo mar mar ke ye jina to nahin hai

غزل

جیتا ہوں جو مر مر کے یہ جینا تو نہیں ہے

مہیش چندر نقش

;

جیتا ہوں جو مر مر کے یہ جینا تو نہیں ہے
دنیا مرے احساس کی دنیا تو نہیں ہے

کہنے کو تو ہے دیدۂ نرگس میں بھی جادو
ہر آنکھ میں تصویر تمنا تو نہیں ہے

یہ حسن کے جلوے یہ فضاؤں کا ترنم
یہ شام چمن شام کلیسا تو نہیں ہے

آیا ہے دل زار کو پیغام مسرت
یہ بھی غم فردا کا تقاضا تو نہیں ہے

یوں روٹھ کے جانے پہ میں خاموش ہوں لیکن
یہ بات مرے دل کو گوارا تو نہیں ہے

ہر حال میں لازم ہے مجھے پاس محبت
یہ سچ ہے مگر دل کا بھروسہ تو نہیں ہے

بگڑے تھے وہ جس بات پہ مجھ سے سر محفل
اے نقشؔ دل اس بات کو بھولا تو نہیں ہے