جیت کر بازیٔ الفت کو بھی ہارا جائے
اس طرح حسن کو شیشے میں اتارا جائے
اب تو حسرت ہے کہ برباد کیا ہے جس نے
اس کا دیوانہ مجھے کہہ کے پکارا جائے
آپ کے حسن کی توصیف سے مقصد ہے مرا
نقش فطرت کو ذرا اور ابھارا جائے
تم ہی بتلاؤ کہ جب اپنے ہی بیگانے ہیں
دہر میں اپنا کسے کہہ کے پکارا جائے
ذہن خوددار پہ یہ بار ہی ہو جاتا ہے
غیر کے سامنے دامن جو پسارا جائے
کتنی دشوار ہے پابندی آئین وفا
آہ بھی لب پہ اگر آئے تو مارا جائے
شب تو کٹ جائے گی یادوں کے سہارے وصفیؔ
فکر اس کی ہے کہ دن کیسے گزارا جائے
غزل
جیت کر بازیٔ الفت کو بھی ہارا جائے
عبدالرحمان خان واصفی بہرائچی