EN हिंदी
جینے میں تھی نہ نزع کے رنج و محن میں تھی | شیح شیری
jine mein thi na naza ke ranj o mehan mein thi

غزل

جینے میں تھی نہ نزع کے رنج و محن میں تھی

جگت موہن لال رواںؔ

;

جینے میں تھی نہ نزع کے رنج و محن میں تھی
عاشق کی ایک بات جو دیوانہ پن میں تھی

سادہ ورق تھا باہمہ گل ہائے رنگ رنگ
تفسیر جان پاک بیاض کفن میں تھی

بڑھتا تھا اور ذوق طلب بیکسی کے ساتھ
کچھ دل کشی عجیب نواح وطن میں تھی

بیمار جب ہیں کرتے ہیں فریاد چارہ گر
کیا داستان درد سکوت محن میں تھی

کہتا تھا چشم شوق سے وہ آفتاب حسن
ہلکی سی اک شعاع تھی جو انجمن میں تھی

کچھ اضطراب عشق کا عالم نہ پوچھئے
بجلی تڑپ رہی تھی کہ جان اس بدن میں تھی

کس سے کہوں کہ تھی وہی گل ہائے رنگ رنگ
بکھری ہوئی جو خاک سواد چمن میں تھی