جینے کو ایک آدھ بہانہ کافی ہوتا ہے
سچا ہو تو ایک فسانہ کافی ہوتا ہے
چاند کو میں نے جب بھی دیکھا یہ احساس ہوا
اک صحرا میں اک دیوانہ کافی ہوتا ہے
ہم روٹھیں تو گھر کے کمرے کم پڑ جاتے ہیں
ہم چاہیں تو ایک سرہانا کافی ہوتا ہے
جیتے جی یہ بات نہ مانی مر کے مان گئے
سب کہتے تھے ایک ٹھکانہ کافی ہوتا ہے
غزل
جینے کو ایک آدھ بہانہ کافی ہوتا ہے
شناور اسحاق