EN हिंदी
جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے | شیح شیری
jine ki hai ummid na marne ka yaqin hai

غزل

جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے

فانی بدایونی

;

جینے کی ہے امید نہ مرنے کا یقیں ہے
اب دل کا یہ عالم ہے نہ دنیا ہے نہ دیں ہے

گم ہیں رہ تسلیم میں طالب بھی طلب بھی
سجدہ ہی در یار ہے سجدہ ہی جبیں ہے

کچھ مظہر باطن ہوں تو کچھ محرم ظاہر
میری ہی وہ ہستی ہے کہ ہے اور نہیں ہے

ایذا کے سوا لذت ایذا بھی ملے گی
کیوں جلوہ گہ ہوش یہاں دل بھی کہیں ہے

مایوس سہی حسرتئ موت ہوں فانیؔ
کس منہ سے کہوں دل میں تمنا ہی نہیں ہے