جینا ہے خوب اوروں کی خاطر جیا کرو
اک آدھ سانس خود بھی تو لیتے رہا کرو
کیا حرج ہے جو دل کی بھی سن لو کبھی کبھی
یوں اپنے آپ سے نہ ہمیشہ لڑا کرو
یہ بار زیست جھیلتے رہنا ہے عمر بھر
اپنی تھکن پہ ٹک کے کبھی سو لیا کرو
ہے بسکہ خاک اڑانے کی آوارگی کو کھو
رخت سفر میں گھر کو بھی باندھے پھرا کرو
افعی بھی سو رہے ہیں چنبیلی کی چھاؤں میں
نووارد چمن ہو سنبھل کر چلا کرو
کتنا کہا تھا تم سے کہ مت کھیلو آگ سے
اب جو سلگ پڑی ہے تو چپکے جلا کرو
غزل
جینا ہے خوب اوروں کی خاطر جیا کرو
بلقیس ظفیر الحسن