جینا اب دشوار ہے بابا
فکروں کی بھر مار ہے بابا
کھوٹے سکے خوب چلیں گے
اب اپنی سرکار ہے بابا
دین کو بیچو دنیا بیچو
اب یہ کاروبار ہے بابا
آج کی یہ تہذیب تو جیسے
گرتی ہوئی دیوار ہے بابا
مفلس کی آواز دبی ہے
پیسوں کی جھنکار ہے بابا
کس کو سلیقہ ہے پینے کا
کون یہاں مے خوار ہے بابا
اپنا ہی درویشؔ تو شاید
دیکھو سوئے دار ہے بابا

غزل
جینا اب دشوار ہے بابا
طارق رشید درویش