جی رہا ہوں میں اداسی بھری تصویر کے ساتھ
شور کرتا ہوں سیہ رات میں زنجیر کے ساتھ
سرخ پھولوں کی گھنی چھاؤں میں چپکے چپکے
مجھ سے ملتا تھا کوئی اک نئی تنویر کے ساتھ
اک تری یاد کہ ہر سانس کے نزدیک رہی
اک ترا درد کہ چسپاں رہا تقدیر کے ساتھ
کبھی زخموں کا بھی خندۂ گل کا موسم
ہم پہ کھلتا رہا اک درد کی تفسیر کے ساتھ
بات آپس کی ہے آپس ہی میں رہنے دیجے
ورنہ ہم سرخیاں بن جائیں گے تشہیر کے ساتھ
آپ کی میز پہ پھر ایک نیا منظر ہے
میری تصویر بھی ہے آپ کی تصویر کے ساتھ
دل کے نزدیک سر شام الم اے نیرؔ
زخم کے چاند چمک اٹھتے ہیں تنویر کے ساتھ
غزل
جی رہا ہوں میں اداسی بھری تصویر کے ساتھ
اظہر نیر