جی میں ہے اک دن جھوم کر اس شوخ کو سجدہ کروں
سجدے سے پھر اللہ تک اک راستہ پیدا کروں
بس ہو چکا اہل جہاں اب یہ تماشہ کب تلک
کیا چشم ظاہر سے ملا کیا دیدۂ دل وا کروں
ہاں ہاں وہ بازی گر سہی مٹی کا اک پیکر سہی
تیری نظر سے ہم نشیں کیسے اسے دیکھا کروں
جیسے کہیں ہے کچھ کمی تصویر بنتی ہی نہیں
عرض ہنر میں کب تلک کلک گہر توڑا کروں
اس سے یہی کہتا ہوں واجب احترام عشق ہے
اندر سے یہ خواہش ہے وہ جیسا کہے ویسا کروں
یہ جھلملاتا سا جہاں گاہے عیاں گاہے نہاں
ٹھہرے تو کچھ معلوم ہو دیکھوں تو راز افشا کروں
غزل
جی میں ہے اک دن جھوم کر اس شوخ کو سجدہ کروں
وارث کرمانی