جی میں آتا ہے کہ چل کر جنگلوں میں جا رہیں
نت نئے موسم کے بھی ہم راہ وابستہ رہیں
آتی جاتی رت کو دیکھیں اپنے چشم و گوش سے
موسموں کے وار سہہ کر بھی یوں ہی زندہ رہیں
پھول پھل پودے پرندے ہم دم و دم ساز ہوں
ان میں بستے ہی بھلے لیکن نہ یوں تنہا رہیں
شہر کے دیوار و در ہر اک سے ہیں نا آشنا
شہر میں رہتے ہوئے کیونکر نہ بیگانہ رہیں
بے مروت ہے زمانہ اس کا شکوہ کیوں کریں
اپنے اندر کے مکیں کا بن کے ہمسایہ رہیں
جسم کے اندر غموں کی آندھیاں چلتی رہیں
ظاہری صورت میں سب چہرے تر و تازہ رہیں
دیکھتے ہی جس کو سب محرومیاں کافور ہوں
دل میں طوفاں سے اٹھیں چہرے مگر سادہ رہیں
مسئلہ یہ بھی تو ہے اس عہد کا اے جان جاں
کیوں نچھاور جاں کریں کس کے لیے زندہ رہیں
اڑتے لمحوں کو اگر قابو میں کرنا ہے سعیدؔ
بھاگنے کو ہر گھڑی ہر وقت آمادہ رہیں
غزل
جی میں آتا ہے کہ چل کر جنگلوں میں جا رہیں
تاج سعید