EN हिंदी
جی بھی کچھ ایسا جلایا ہے کہ جی جانتا ہے | شیح شیری
ji bhi kuchh aisa jalaya hai ki ji jaanta hai

غزل

جی بھی کچھ ایسا جلایا ہے کہ جی جانتا ہے

طالب باغپتی

;

جی بھی کچھ ایسا جلایا ہے کہ جی جانتا ہے
آپ نے اتنا رلایا ہے کہ جی جانتا ہے

یاد بن کر تری معصوم وفا نے ظالم
دل پہ وہ نقش بٹھایا ہے کہ جی جانتا ہے

شوق گستاخ نے اکثر تمہیں برہم کر کے
ہائے وہ لطف اٹھایا ہے کہ جی جانتا ہے

جب کبھی یاد دلایا ہے تخیل نے تمہیں
اس طرح یاد دلایا ہے کہ جی جانتا ہے

اتنا افسانۂ فرقت کو کیا عشق نے ضبط
صرف یہ درس پڑھایا ہے کہ جی جانتا ہے

درس عبرت ہے مرے دل کی تباہی طالبؔ
خاک میں ایسا ملایا ہے کہ جی جانتا ہے