جہت کو بے جہتی کے ہنر نے چھین لیا
مری نگاہ کو میرے ہی سر نے چھین لیا
ہے کس کے دست کرم میں مہار ناقۂ جاں
سفر کا لطف غم ہم سفر نے چھین لیا
میں اپنی روح کے ذرے سمیٹتا کیوں کر
یہ خاک وہ تھی جسے کوزہ گر نے چھین لیا
بھٹک رہے ہیں جوانی کے نارسا لمحات
بہت سے گھر تھے جنہیں ایک گھر نے چھین لیا
بقول غالبؔ دانا گزر ہی جاتی یہ عمر
مگر اسے بھی ترے رہ گزر نے چھین لیا
شکارگاہ شکاری کے خوں سے رنگیں ہے
زمیں کا رزق کسی جانور نے چھین لیا
سفر کی روح تھا وہ ذوق جستجو طالبؔ
جسے چراغ سر رہ گزر نے چھین لیا

غزل
جہت کو بے جہتی کے ہنر نے چھین لیا
طالب جوہری