EN हिंदी
جھوٹی ہی تسلی ہو کچھ دل تو بہل جائے | شیح شیری
jhuTi hi tasalli ho kuchh dil to bahal jae

غزل

جھوٹی ہی تسلی ہو کچھ دل تو بہل جائے

فنا نظامی کانپوری

;

جھوٹی ہی تسلی ہو کچھ دل تو بہل جائے
دھندھلی ہی سہی لیکن اک شمع تو جل جائے

اس موج کی ٹکر سے ساحل بھی لرزتا ہے
کچھ روز تو طوفاں کی آغوش میں پل جائے

مجبوریٔ ساقی بھی اے تشنہ لبو سمجھو
واعظ کا یہ منشا ہے مے خواروں میں چل جائے

اے جلوۂ جانانہ پھر ایسی جھلک دکھلا
حسرت بھی رہے باقی ارماں بھی نکل جائے

اس واسطے چھیڑا ہے پروانوں کا افسانہ
شاید ترے کانوں تک پیغام عمل جائے

مے خانۂ ہستی میں میکش وہی میکش ہے
سنبھلے تو بہک جائے بہکے تو سنبھل جائے

ہم نے تو فناؔ اتنا مفہوم غزل سمجھا
خود زندگیٔ شاعر اشعار میں ڈھل جائے