جھوٹ کی مقدار کم ہے اور سچائی بہت
صاف گوئی سے ہوئی ہے میری رسوائی بہت
اپنی کم گوئی سے قد آور تو چھوٹے بن گئے
بڑھ گئی لفاظ بونوں کی اب اونچائی بہت
بے نیازانہ میں اپنی جستجو میں گم رہا
یاد ان کی میرے دل میں آ کے شرمائی بہت
تیرہ بختی نے اسیری میں نبھایا میرا ساتھ
روزن زنداں سے یوں تو روشنی آئی بہت
کھوکھلے الفاظ مرہم بن نہ پائے اے رضاؔ
جھوٹے سچے آنسوؤں نے کی مسیحائی بہت
غزل
جھوٹ کی مقدار کم ہے اور سچائی بہت
قاضی حسن رضا