جھوٹ فردوس کے فسانے ہیں
دور کے ڈھول ہی سہانے ہیں
بھولی باتوں میں بھی بہانے ہیں
کم سنی میں بڑے سیانے ہیں
پوچھیے ان سے عشق کی راہیں
کہ خضر آدمی پرانے ہیں
بالچھڑ کیا کہوں میں کاکل کو
سیکڑوں اس میں شاخسانے ہیں
طوق گردن میں پاؤں میں زنجیر
یہی ہم وحشیوں کے بانے ہیں
اے پری کیا کریں ہم اب تسخیر
نہ تو ملا نہ ہم سیانے ہیں
ابر رحمت ہو یا کہ ابر کرم
مے پرستوں کے شامیانے ہیں
پائنتی ہیں ملک تو ہوں اے شادؔ
غم نہیں پنج تن سرہانے ہیں
غزل
جھوٹ فردوس کے فسانے ہیں
شاد لکھنوی