جھوم کر گاؤ میں شرابی ہیں
رقص فرماؤ میں شرابی ہوں
ایک سجدہ بنام مے خانہ
دوستو آؤ میں شرابی ہوں
لوگ کہتے ہیں رات بیت چکی
مجھ کو سمجھاؤ میں شرابی ہوں
آج ان ریشمی گھٹاؤں کو
یوں نہ بکھراؤ میں شرابی ہوں
حادثے روز ہوتے رہتے ہیں
بھول بھی جاؤ میں شرابی ہوں
مجھ پہ ظاہر ہے آپ کا باطن
منہ نہ کھلواؤ میں شرابی ہوں
غزل
جھوم کر گاؤ میں شرابی ہیں
ساغر صدیقی