جھکا ہوا ہے جو مجھ پر وجود میرا ہے
خود اپنے غار کا پتھر وجود میرا ہے
یہ چاپ، تیرگی، نیچے کو جا رہا زینہ
اسی سرنگ کے اندر وجود میرا ہے
نہیں ہے اس میں کسی کی شراکت نفسی
یہ بات طے ہے سراسر وجود میرا ہے
مشابہ دونوں ہیں پھر بھی رخ تمنا سے
ترے وجود سے بڑھ کر وجود میرا ہے
یہ حد خیرگی جس پر ہے جلوہ آرا تو
بس اس سے اگلے قدم پر وجود میرا ہے

غزل
جھکا ہوا ہے جو مجھ پر وجود میرا ہے
رفیق سندیلوی