جھونکے آتے ہیں بوئے الفت کے
پھول یا رب ہیں کس کی تربت کے
شور ہے دل میں غم کے نالوں کا
علم اٹھتے ہیں آج حسرت کے
تیری باتوں میں کیا حلاوت تھی
کہ نہ لب کھل سکے شکایت کے
ہم پہ اور تیغ ناز اٹھ نہ سکے
چوچلے ہیں تری نزاکت کے
اے بیاںؔ قیس و وامق و فرہاد
تھے یہ سارے مرید حضرت کے
غزل
جھونکے آتے ہیں بوئے الفت کے
بیان یزدانی