جھونکا ہوا کا ادھ کھلی کھڑکی تک آ نہ جائے
جینے کا اس کو کوئی سلیقہ سکھا نہ جائے
کنکر سے چکناچور ہے سیال آئنہ
قرطاس موج کا کوئی لکھا مٹا نہ جائے
عریاں کھڑی ہوئی یہ سیہ سی پہاڑ شب
سورج کی انفعالی نظر کو جھکا نہ جائے
جب سے ہوئی ہے میری زباں زہر آشنا
امرت کا ایک گھونٹ بھی مجھ سے پیا نہ جائے
گردش میں آسمان مرا ساتھ دے مگر
میری ہتھیلیوں کی لکیریں مٹا نہ جائے
کل اک عجیب واقعہ گزرا شکیب ایازؔ
سوچوں تو خود پہ خوب ہنسوں اور کہا نہ جائے
غزل
جھونکا ہوا کا ادھ کھلی کھڑکی تک آ نہ جائے
شکیب ایاز