جھلملاتے ہوئے آنسو بھی عجب ہوتے ہیں
شام فرقت کے یہ جگنو بھی عجب ہوتے ہیں
یہ ادا حسن کی ہم کیوں نظر انداز کریں
اس کے بکھرے ہوئے گیسو بھی عجب ہوتے ہیں
قتل ہو کوئی تو کانپ اٹھتی ہے ساری دنیا
درد انساں کے یہ پہلو بھی عجب ہوتے ہیں
کس کو گیت اپنے سناتے ہیں وہاں کیا کہیے
نغمہ خوانان لب جو بھی عجب ہوتے ہیں
اس خرابی سے تو معمور ہے سارا عالم
یہ فسادات من و تو بھی عجب ہوتے ہیں
ولولے دل کے نہ معلوم کدھر لے جائیں
کشتئ دل کے یہ چپو بھی عجب ہوتے ہیں
بھائیوں کے ستم و جور کو کیا تم سے کہوں
رمزؔ یہ قوت بازو بھی عجب ہوتے ہیں

غزل
جھلملاتے ہوئے آنسو بھی عجب ہوتے ہیں
رمز آفاقی