جھیل کے پار دھنک رنگ سماں ہے کیسا
جھلملاتا ہوا وہ عکس وہاں ہے کیسا
جلتے بجھتے ہوئے فانوس ہیں منظر منظر
نقش در نقش وہ مٹ کر بھی عیاں ہے کیسا
کتنے الفاظ و معانی کے ورق کھلتے ہیں
میرے اندر یہ کتابوں کا جہاں ہے کیسا
مجھ میں اب میری جگہ اور کوئی ہے شاید
کچھ سمجھ میں نہیں آتا یہ گماں ہے کیسا
شہر سے لوٹ کے گھر قرض چکانا ہے مجھے
کیسے لکھوں کہ مرا حال یہاں ہے کیسا
کس نے ڈالی ہے فضاؤں پہ یہ میلی چادر
شب کے ماتھے پہ لہو رنگ نشاں ہے کیسا
مٹھیاں بھیج کے ہم لوگ رہے ہیں کب سے
دور تک آگ کا جنگل ہے سماں ہے کیسا
میرے اجداد کے تو خواب یہاں دفن نہیں
یہ حویلی یہ پر اسرار دھواں ہے کیسا
قبریں بھی اس میں نہیں تاج محل کی صورت
کوئی آباد نہیں ہے یہ مکاں ہے کیسا
غزل
جھیل کے پار دھنک رنگ سماں ہے کیسا
نصرت گوالیاری