جھپٹتے ہیں جھپٹنے کے لیے پرواز کرتے ہیں
کبوتر بھی وہی کرنے لگے جو باز کرتے ہیں
وہی قصے وہی باتیں کہ جو غماز کرتے ہیں
ترے ہم راز کرتے ہیں مرے دم ساز کرتے ہیں
بصد حیلے بہانے ظلم کا در باز کرتے ہیں
وہی جاں باز جن پر ہر گھڑی ہم ناز کرتے ہیں
زیادہ دیکھتے ہیں جب وہ آنکھیں پھیر لیتے ہیں
نظر میں رکھ رہے ہوں تو نظر انداز کرتے ہیں
ستایش گھر کے پنکھوں سے ہوا تو کم ہی آتی ہے
مگر چلتے ہیں جب ظالم بہت آواز کرتے ہیں
زمانے بھر کو اپنا راز داں کرنے کی ٹھہری ہے
تو بہتر ہے چلو اس شوخ کو ہم راز کرتے ہیں
ڈراتا ہے بہت انجام نمرودی مجھے خالدؔ
خدا لہجے میں جب بندے سخن آغاز کرتے ہیں
غزل
جھپٹتے ہیں جھپٹنے کے لیے پرواز کرتے ہیں
خالد ؔمحمود