جہل کو علم کا معیار سمجھ لیتے ہیں
لوگ سائے کو بھی دیوار سمجھ لیتے ہیں
چھیڑ کر جب بھی کسی زلف کو تو آتی ہے
اے صبا ہم تری رفتار سمجھ لیتے ہیں
تو فقط جام کا مفہوم سمجھ اے ساقی
تشنگی کیا ہے یہ مے خوار سمجھ لیتے ہیں
ہم کہ ہیں جنبش ابرو کی زباں سے واقف
تیرے کھنچنے کو بھی تلوار سمجھ لیتے ہیں
اب کسی برہمیٔ زلف کا چرچا نہ کرو
لوگ اپنے کو گرفتار سمجھ لیتے ہیں
جو بھی بازار میں دم بھر کو ٹھہر جاتا ہے
سادہ دل اس کو خریدار سمجھ لیتے ہیں
دل کے اسرار چھپاتے ہیں وہ ہم سے شاعرؔ
ہم کہ رنگ لب و رخسار سمجھ لیتے ہیں

غزل
جہل کو علم کا معیار سمجھ لیتے ہیں
شاعر لکھنوی