EN हिंदी
جزیرے ہوں کہ وہ صحرا ہوں خواب ہونا ہے | شیح شیری
jazire hon ki wo sahra hon KHwab hona hai

غزل

جزیرے ہوں کہ وہ صحرا ہوں خواب ہونا ہے

غیاث متین

;

جزیرے ہوں کہ وہ صحرا ہوں خواب ہونا ہے
سمندروں کو کسی دن سراب ہونا ہے

سوال پوچھنے والو تمہیں بھی آخر کار
رہین منت بار جواب ہونا ہے

کھنڈر میں بیٹھ کے رونے کی خو نہیں جاتی
تمہاری آنکھ پہ شاید عذاب ہونا ہے

وہ ظلمتیں جو اجالوں کے گھر میں رہتی ہیں
انہیں بھی مثل سحر بے نقاب ہونا ہے

وہ دن جو نیلی کتابوں میں بند ہے اس کو
ابھی تو میرے لیے بے حجاب ہونا ہے

ابھی تو خواہش بے دست و پا سلامت ہے
ابھی کچھ اور یہ خانہ خراب ہونا ہے

یہ شاخ شاخ پرندے پکارتے ہیں متینؔ
ہمیں تو شاخ سے گر کر گلاب ہونا ہے