جزیرے ہوں کہ وہ صحرا ہوں خواب ہونا ہے
سمندروں کو کسی دن سراب ہونا ہے
سوال پوچھنے والو تمہیں بھی آخر کار
رہین منت بار جواب ہونا ہے
کھنڈر میں بیٹھ کے رونے کی خو نہیں جاتی
تمہاری آنکھ پہ شاید عذاب ہونا ہے
وہ ظلمتیں جو اجالوں کے گھر میں رہتی ہیں
انہیں بھی مثل سحر بے نقاب ہونا ہے
وہ دن جو نیلی کتابوں میں بند ہے اس کو
ابھی تو میرے لیے بے حجاب ہونا ہے
ابھی تو خواہش بے دست و پا سلامت ہے
ابھی کچھ اور یہ خانہ خراب ہونا ہے
یہ شاخ شاخ پرندے پکارتے ہیں متینؔ
ہمیں تو شاخ سے گر کر گلاب ہونا ہے

غزل
جزیرے ہوں کہ وہ صحرا ہوں خواب ہونا ہے
غیاث متین