EN हिंदी
جذبوں سے فروزاں ہیں دہکتے ہوئے رخسار | شیح شیری
jazbon se farozan hain dahakte hue ruKHsar

غزل

جذبوں سے فروزاں ہیں دہکتے ہوئے رخسار

سہیل کاکوروی

;

جذبوں سے فروزاں ہیں دہکتے ہوئے رخسار
کیا حشر بداماں ہیں دہکتے ہوئے رخسار

روشن ہے اجل اور ابد ان کی ضیا سے
یہ رحمت یزداں ہیں دہکتے ہوئے رخسار

بڑھنے لگی کچھ اور وہاں آتش جذبات
دل میں میرے مہماں ہیں دہکتے ہوئے رخسار

کر دی ہے لب و چشم نے تصدیق ہماری
حسن رخ جاناں ہیں دہکتے ہوئے رخسار

چنگاریاں اٹھتی ہیں تو لگتی ہیں ہمیں پھول
جادوئے بہاراں ہیں دہکتے ہوئے رخسار

زلفوں کی ہوائیں تو سہیلؔ اور غضب ہیں
اب آگ کا طوفاں ہیں دہکتے ہوئے رخسار