جذبات کی شدت سے نکھرتا ہے بیاں اور
غیروں سے محبت میں سنورتی ہے زباں اور
احساس کی پلکوں میں تری یاد کا پرتو
غمگین بنا دیتا ہے محفل کا سماں اور
گزرے ہوئے حالات سے بنتی ہے کہانی
گرتے ہوئے تاروں سے منور ہے مکاں اور
مجھ کو نہ بتا زیست کے امکان بہت ہیں
مٹی میں نمی ہو تو ابھرتے ہیں نشاں اور
آنگن ہی میں خوشبو کو مقید نہ کرو تم
پرواز سے مل جائیں گے انساں کو جہاں اور
غزل
جذبات کی شدت سے نکھرتا ہے بیاں اور
احسان جعفری