جذبۂ سوز طلب کو بیکراں کرتے چلو
کو بہ کو روشن چراغ کارواں کرتے چلو
چشم ساقی پر تبسم میکدہ بہکا ہوا
آؤ قسمت کو حریف کہکشاں کرتے چلو
چھین لاؤ آسماں سے مہر و مہ کی عظمتیں
اور ٹوٹے جھونپڑوں کی ضو فشاں کرتے چلو
زندگی کو لوگ کہتے ہیں برائے بندگی
زندگی کٹ جائے گی ذکر بتاں کرتے چلو
جن سے زندہ ہو یقین و آگہی کی آبرو
عشق کی راہوں میں کچھ ایسے گماں کرتے چلو
ہر نفس اے جینے والو شغل پیمانہ رہے
بے خودی کو زندگی کا پاسباں کرتے چلو
چھیڑ کر ساغرؔ کسی کے گیسوؤں کی داستاں
ان شگوفوں کو ذرا شعلہ زباں کرتے چلو
غزل
جذبۂ سوز طلب کو بیکراں کرتے چلو
ساغر صدیقی