جذبۂ عشق پھر مچلتا ہے
ڈھلتے ڈھلتے یہ چاند ڈھلتا ہے
پوچھتی پھر رہی ہے اوس ابھی
پھول کب پیرہن بدلتا ہے
میں تو چلتا ہوں تیری یاد کے ساتھ
راستہ میرے ساتھ چلتا ہے
تیرے آنگن میں شب اترتی ہے
تیری کھڑکی سے دن نکلتا ہے
خوشبوئیں خوشبوؤں سے ملتی ہیں
کس لیے پھول ہاتھ ملتا ہے
لاکھ نازک سہارے ہوں لیکن
گرنے والا کہاں سنبھلتا ہے
آرزوؤں کی فصل دل میں ہے
چشمہ آنکھوں سے کیوں ابلتا ہے
ہم جھلس تو رہے ہیں اے جاناں
تیرا سورج بھی تو پگھلتا ہے
رائے ہم کو بدلنی پڑتی ہے
وقت کب فیصلہ بدلتا ہے

غزل
جذبۂ عشق پھر مچلتا ہے
لطیف ساحل