جذبۂ عشق بھی ہے گرمئ بازار بھی ہے
حسن یوسف کا مگر کوئی خریدار بھی ہے
شعلۂ طور بھی ہے جلوہ گہہ بار بھی ہے
دیکھنا یہ ہے کوئی طالب دیدار بھی ہے
دل کا سودا مجھے منظور ہے لیکن اے دوست
میرا ہم ذوق بھی ہے مونس و غم خوار بھی ہے
کبھی بدلے ہوئے تیور کبھی دزدیدہ نظر
ایک ہی وقت میں اقرار بھی انکار بھی ہے
پر ضیا بزم مسرت ہے ضیائے غم سے
جس جگہ پھول مہکتا ہے وہاں خار بھی ہے
چشم ساقی کا نہ مے خوار سہارا ڈھونڈیں
وہ سخن ساز بھی ہے اور جفا کار بھی ہے
میری دنیا میں وہی شام و سحر ہیں اب تک
زندگی تلخ بھی ہے اور گراں بار بھی ہے
دل ہتھیلی پہ لئے سر کو جھکائے رہنا
ان کا منشا بھی ہے عاشق کو سزاوار بھی ہے
جب غم دل کو مسیحا کی ضرورت ہی نہیں
اب میں سمجھا ہوں یہ اک عقدۂ دشوار بھی ہے
ساجدؔ خستہ کو آغوش کرم میں لے لے
تیرا بندہ بھی ہے اور تیرا گنہ گار بھی ہے

غزل
جذبۂ عشق بھی ہے گرمئ بازار بھی ہے
ساجد صدیقی لکھنوی