EN हिंदी
جذبۂ عشق عجب سیر دکھاتا ہے ہمیں | شیح شیری
jazba-e-ishq ajab sair dikhata hai hamein

غزل

جذبۂ عشق عجب سیر دکھاتا ہے ہمیں

جرأت قلندر بخش

;

جذبۂ عشق عجب سیر دکھاتا ہے ہمیں
اپنی جانب کوئی کھینچے لیے جاتا ہے ہمیں

بزم میں تکتے ہیں منہ اس کا کھڑے اور وہ شوخ
نہ اٹھاتا ہے کسی کو نہ بٹھاتا ہے ہمیں

کیا ستم ہے کہ طریق اپنا رہ عشق میں آہ
کوئی جس کو نہیں بھاتا وہ ہی بھاتا ہے ہمیں

اس ترقی میں تنزل میں ہے کہ جوں قامت طفل
آسماں عمر گھٹانے کو بڑھاتا ہے ہمیں

بند کر بیٹھے ہیں اب آنکھ جو ہم تو اللہ
نظر آتا جو نہیں سو نظر آتا ہے ہمیں

ٹھنڈے ہونے کا بھی تا سمجھیں مزا اتنے لیے
چرخ مانند چراغ آہ جلاتا ہے ہمیں

اے خوشا یہ کہ وہ ہنسنے کے لیے روتا ہے
اپنی خورسندیٔ خاطر کو کڑھاتا ہے ہمیں

مل کے ہم اس سے جو ٹک سوویں تو دکھ دینے کو
بخت بد خواب جدائی کا دکھاتا ہے ہمیں

ہم ہیں وہ مرغ گرفتار کہ اپنے پر سے
وارنا جس کو کہ ہووے وہ چھڑاتا ہے ہمیں

لا کے اس شوخ ستم گر کے دو رنگی کے پیام
نہ ہنساتا ہے کوئی اب نہ رلاتا ہے ہمیں

سن سے جا بیٹھتے ہیں اس کے تصور میں ہم آہ
بزم خوباں میں کوئی پاس بلاتا ہے ہمیں

محو نظارہ ہوں کیا ہم کہ بہ قول جرأتؔ
اپنی جانب کوئی کھینچے لیے جاتا ہے ہمیں